کتاب دوستی







کتاب کیا ہے ؟
104 میں چین میں کاغذ کی ایجاد ہوئی اس کے بعد یہ سلسلہ موجودہ پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقوں سے ہوتا ہوابحرہ عرب کے ذریعے خطہ عرب یا مشرق وسطی کے مخصوص علاقوں تک پہنچا ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ سلسلہ اور اس سلسلے کی اہم کڑی مسلمانوں کے ہاتھوں سے جاملتی ہیں کیونکہ چین نے اس وقت یعنی105ء میں کاغذ ایجاد کیا تھا مگر اس کو تقویت اور مزید بڑھوتری دینے والے مسلمان اور مسلمان حکمران تھے کیونکہ اس وقت زیادہ تر حکمران مسلمان تھے بعد ازاں یورپ میں بھی چھاپا خانے بننے لگے یورپ نے بھی مسلمانوں سے کاغذ اور کاغذ بنانے کے چھاپے خانے کا طریقہ سیکھا اس طرح مسلمانوں نے شروع میں نہ صرف کاغذ بیرون ملک بھیج کر  اس ذریعے  بہترین زرمبادلہ کمایا اس کے بعد امریکا یورپ اور دیگر مغربی ممالک کا سلسلہ جاری رہا اس کے بعد اپنے ممالک میں  کاغذ کار خانوں کے بعد یہ سلسلہ کافی حد تک روکا رہا کاغذ کی ایجاد کے بعد ہر طرح کا لکھاری کاغذ کو نہ صرف استعمال کرنے لگابلکہ  ہر طرح کا حکمران چاہے وہ مسلم تھا یا غیر مسلم خط و کتابت کے لئے ان کاغذوں کو استعمال کرتے اور پیغام رسائی  کے لئے بغض کا استعمال کرتے تھے ایک حد تک دیکھا جائے تو مسلمانوں کے عروج کا دور دورہ تھا
اس سے پہلے پیپرس پھر چمڑے کی چھال پر یہ کام کیا جاتا تھالفظ پیپر بھی پیپرس ہی سے نکل کر بنا ہے  اگر غیر مسلم کو خطابت یا پیغام رسائی کرنا ہوتی تب اس کو مسلمان مسلمان کاغذ  خانوں پرانحصار  کرنا پڑتا غیر مسلمان حکمران کاغذ کارخانوں  کے محتاج تھے۔
کاغذ کی ایجاد کے ساتھ ہی ہر طرح کے مواد کو کاغذوں پہ لکھے جانے لگا اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ ان کاغذوں کو جمع کرکے جلد کیا گیا اور جلدکر کے اس شے کا نام *کتاب* رکھا گیا 
۔
اس وقت مسلمان حکمرانوں کی پہچان کے علمی و ادبی ذوق اور ان کے علم محبت کے پہچان انکی کتب خانوں کے دیکھنے سے ہوا کرتی تھی جب کوئی قیدی پکڑا جاتا اس کے پاس سےاگر کوئی کتاب دریافت ہوتی تو اس کی کتاب اپنے قبضے میں لے کر لکھاریوں کو بلا کر اس کی مزید کاپیاں کروائیں اور بادشاہ کی ذاتی    لائبریری میں محفوظ کر لی جاتی اس طرح دیکھا جائے تو نہ صرف معشیت بلکہ علم و ادب میں بھی مسلمان سپر پاور  تھے اور مسلمان حکمران اور ہم مسلمانوں کی کامیابی کا راز ان کا ذاتی کتب خانہ کتب خانوی مواد تھا ۔ہر طرح کی تحقیق کے لیے وہ اپنے کتب خانوں کی طرف رجوع کرتے تھے اگر کوئی غیر مسلم مسلمانوں کی سلطنت کو وقتی نقصان پہنچتا تو سب سے پہلے اس کا نشانہ کتب خانہ ہوا کرتے تھے اس طرح کتب خانوں کو لوٹ کر کتابوں کو حاصل کرکے اپنی سلطنت کے لئے وقف کیا جاتا اور اپنی ذاتی عوامی کتب خانوں کی زینت بنایا جاتا رہا ۔
ماضی میں ایسے مسلمان حکمران بھی گزرے ہیں جن کے ذاتی کتب خانوں کی تعداد لاکھوں میں تھی
اور پہلے کتب خانے کا نام بیت الحکمت تھا--
ان کتب خانوں میں عوام بلکہ خاص لوگوں کے لیے رسائی مشکل سے ملتی تھی۔
مگر آج *کتاب دوستی*  کتاب سے ہمارا تعلق دیکھا جائے تو صدیوں پرانا ہے ۔
1۔کتاب تنہائی کا بہترین ساتھی ہے۔ 
2۔آپ کو ذہنی سکون دیتی ہے ۔
_3کتاب مشکل وقت میں ہمیشہ ساتھ نبھاتی ہے -۔ 
4۔کتاب دوستی ایسی دوستی ہے جو کہ کبھی نقصان نہیں پہنچاتی ۔
5۔کتابوں کو پڑھنے سے اور کتابوں سے دوستی کرنے سے نہ صرف انسانی دماغ کے خلیوں کو تقویت ملتی ہے بلکہ انسان ذہنی طور پر خود کو پرسکون سمجھتا ہے 
6-کتاب دوستی سے نا صرف ذہنی سکون حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ روحانی طور پر بھی پورے جسم کو تقویت ملتی ہے ۔
7۔کتابیں جب تک ہمارے معاشرے کا اہم رکن تھیں تب تک معاشرے میں نہ صرف انصاف کا بول بالا رہا بلکہ برداشت بھی آج کے بے حس معاشرے کی نسبت بہت زیادہ تھا ۔
8۔موجودہ دور میں کتاب دوستی سے دور ہونے کی وجہ سے ذہنی ڈپریشن اور تناؤ کی کیفیت بدترین بیماری بن چکی بلکہ تقریبا ہر خاص وعام اس میں مبتلا ہوگیا ۔
9۔کتاب دوستی برے سے برے انسان کو بدل کر ایک بہترین انسان بناتی ہے ۔
10۔کتاب عظیم دوست ہے۔ 
11۔کتاب ایسا دوست ہے۔ جس کا کوئی ثانی نہیں ۔
12۔کتاب  معاشرے میں پسے ہوئے افراد کو بہترین انسان بنانے کے لیے بھرپور 
دوستی کا کردار ادا کرتی یے۔ 
13۔جب تک مسلمان اور مسلمان حکمرانوں کا کتابوں کی کتاب قرآن حکیم سے تعلق تھا تب تک مسلمان مغرب سے مشرق تک حکمرانی پر مامور تھے ۔
اسے نہ صرف معاشرے میں ذہنی سکون تھا بلکہ جسمانی طور پر بھی مسلمان اور مسلمانوں کے زیر سایہ رہنے والی سلطنت سکون کا شکار تھی ۔کیوں نہ ہوتا۔۔۔؟
 کیونکہ کتابوں سے دوستی تھی غیروں کی ایک نا مانی جاتی تھی ہر فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہوتا تھا اس سب کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کی تمام تر ذمہ داری ہم پر ہے۔  معاشرے میں شدت پسندی دہشت گردی، لوٹ مار ،راہزنی عام ہوچکی اس کی وجہ
کتابوں سے دوری ہے کتابوں کی سردار کتاب قرآن مجید سے دوری اور لاتعلقی بھی ہے ۔ مغلیہ دور کی اہم تصانیف اور
 دوسری اہم تصانیف جو اپنی اصل حالت میں دیارِغیر میں موجود ہیں اس پر علامہ محمد اقبال نے درج ذیل شعر کہا تھا 
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا 

خدا سے دعا ہے کہ خدا ہمیں اس معاشرے کو دوبارہ سے کتاب اور کتاب دوستی کی طرف لے کر آنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمیں معاشرے میں اپنا  کھویا ہوا مقام واپس مل سکے اور ہم معاشرے سے دہشت گردی، شدت پسندی، راہزنی منشیات کے خاتمہ اور نوجوانوں کو بہترین مستقبل دے سکیں خدا ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

لائبریری ٹیکنالوجیز

دنیا کا طاقتور ترین لائبریرین

ایک کتاب سے ارب پتی بننے والی خاتون رائٹر