چائنیز لائبریرین بہترین حکمران حصہ دوم
چائنیز لائبریرین بہترین حکمران حصہ دوم
موؤزے تنگ عظیم ترین مارکسی اورلین نظریات کا فین تھا اپنی فطری ذہانت اور ہم آہنگی تعمیری انداز سے مارکس ازم اورلینن ازم کا دفاع کرتا رہا اور اسے ترقی کے لئے استعمال کیا انہی نظریات کو نئے مرحلے تک لے کر گیا پورے ملک چین پوری فوج اور پوری پارٹی کے تمام کاموں کے لئے ماوزے تنگ کا فکر قیادتی اصولوں کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک طاقتور نظریاتی ہتھیار ہے انقلاب لانے کے لئے ایک پارٹی کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ پارٹی انقلاب لانے کے لئے اہم کردار ادا کرتی ہے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ماؤزے نے ایک انقلابی پارٹی کی بنیاد رکھی اس پارٹی کو کمیونسٹ پارٹی کا نام دیا بنیادی طور پر یہ پارٹی مزدور اور عوام کی قیادت کرنا بخوبی جانتی تھی درحقیقت انقلاب لانے کے لئے اسی طرح کی عوامی طاقت کا سہارا لیا جاتا ہے موؤزے تنگ انقلاب لانے کی شروعات میں ایک پارٹی کی تکمیل کے بعد کامیاب ہوا اپنی زندگی کے کیریئر کی ابتدا ایک لائبریرین کے طور پر کرنے والا حکمران اب ایک انقلابی پارٹی کا لیڈر بھی تھا "چینی کمیونسٹ پارٹی کی جدوجہد کے بغیر چین نا تو قومی آزادی حاصل کر سکتا تھا ناہی صنعتی اور زرعی میدانوں میں آگے بڑھ سکتا تھا ۔چین کا حقیقی رہنما تسلیم کئے بغیر ان دونوں میدانوں میں آگے نکلنا ناممکن تھا چین کی کمیونسٹ انقلابی پارٹی تمام چینیوں کا دل تھی۔۔
مارکس اور لینن کے نظریات اور اصول سے مسلح ہو کر چین کی انقلابی پارٹی کمیونسٹ پارٹی نے عوام کو کام کرنے کی ایک نئی لہر پر چلا دیا تھا کام کرنے کی ایسی طاقت جو اس گروپ نے بنا دی تھی کہ وہ کام کرنے کے بعد خود بخود اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور تھے ۔اورکمیونسٹ پارٹی کے لیڈر ماؤزے تنگ کی انقلابی تقریریں ان میں نئی روح پھونک دی تھی ۔ایک موقع پر موؤزے تنگ اپنے پارٹی ورکروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا جماعتوں کے درمیان ہار جیت کے بعد کشمکش جاری رہتی ہے لیکن انہیں اپنی ہزاروں برس پرانی تہذیب و تمدن و تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اس نقطہ نظر کی متضاد تشریح کا نام تاریخ خیال پرستی ہے ۔
اچینی انقلابی پارٹی سے 1939 میں خطاب کرتے ہوئے موزے تنگ نے کہا تھا ۔
" جاگیردار طبقے کی بے رحمانہ اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور سیاسی جبر نے دہقانوں کو ان کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور کر دیا کسان طبقہ کی جدوجہد بغاوتیں اور جنگی جنون نے جاگیردارانہ معاشرے میں تاریخی ترقی کی ،حقیقی اور بامقصد طاقت کو جنم دیا "
اسی طرح 1932 کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا
"اگرچہ چین میں سوشلسٹ انقلاب کی بدولت ذاتی ملکیت کا نظام ختم ہو چکا ہے اور عوام کے وسیع پیمانے پر انقلابی جدوجہد ایک حد تک پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے ۔لیکن ابھی تک شکست خوردہ جاگیرداروں اور دولت مندوں کی نشانیاں باقی ہیں ۔
موزے تنگ نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے ملک میں سوشلزم اور سرمایہ داروں کے درمیان نظریاتی کشمکش کا فیصلہ ہونے میں بھی خاصی دیر لگے گی اس کی ایک وجہ ہمارے ملک میں بورژواؤں اور ادیبوں کا اثر بھی خاصی دیر تک جاری رہے گا اسی طرح اطبقاتی نظریات بھی قائم رہیں گے اگر اس بات کو اب بھی نہ سمجھا گیا تو یہ بڑی غلطی ہو گی جس کے سبب نظریاتی میدان میں جنگ جاری رکھنے کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جائے گا ۔
درج بالا تمام تقریریں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں ۔کہ وہ ناصرف کتاب بلکہ لکھنے کی طاقت سے بھی بخوبی آگاہ تھے کے کس طرح لکھی گئی تحریروں کا اثر فی زمانہ کافی عرصے تک جاری رہتا ہے ۔
March 1927 میں ہونان میں کسان تحریک سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ۔
انقلاب کوئی ایک ڈنر پارٹی یا مضمون لکھنا یا کوئی تصویر بنانا یا کشیدہ کاری کے مترادف نہیں ۔یہ کوئی نازک شائستہ اور خوبصورت چیز نہیں ،یہ تو ایک ہنگامہ ہے تشدد کا ایک ایسا فعل ہے جس کے ذریعے ایک گروپ کا تختہ الٹ دیتا ہے ۔
کمیونسٹ نا صرف ایک پارٹی ہے بلکہ بین الاقوامی اور حب الوطنی پر مبنی ایک جماعت بھی ہے ایک گروہ بھی ہے
1938 کی منتخب تحریروں میں سے ایک تحریر برائے حب الوطنی اور بین الاقوامیت پرستی ۔
"یہ کس قسم کا جذبہ ہے جو غیر ملکیوں کو چینی عوام کی جنگ آزادی کو بے لوثانہ اپنانے پر مجبور کرتا ہے ؟ یہ بین الاقوامیت پرستی کا جذبہ ہے ۔کمیونزم کا جذبہ جس سے ہر چینی کو سبق سیکھنا چاہیے ہمیں تمام سرمایہ دارانہ ملکوں کے پرولتاریوں جاپان، برطانیہ ،امریکہ اور دوسرے سرمایہ دار ملکوں کے پر والیوں سے متحد ہوکر سامراجیت کا تختہ الٹ دینا چاہیے تاکہ ہم اپنے ملک اور عوام نے دوسرے ملکوں اور ان کے عوام کو آزاد کر سکیں یہی ہماری بین الاقوامی ترستی ہے اور اسی بین الاقوامیت پرستی سے ہم تنگ نظر قوم پرستی اورتنگ نظر حب الوطنی کی مخالفت کرتے ہیں ۔
8 اگست 1963 کو اافریقی دستور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ۔
"مظلوم انسان جنگ آزادی میں سب سے پہلے اپنی جدوجہد اور پھر بین الاقوامی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں ۔لوگ اپنے ملک میں انقلاب لانے میں کامیاب ہو چکے ہو ں۔ انہیں جنگ آزادی میں مصروف لوگوں کی مدد کرنا چاہیے بین الاقوامی سطح پر ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ فرض ہے ۔
۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔ . .
تبصرے
"کتاب دوستی"
حصہ اول
کتاب کیا ہے ؟
105ء میں چین میں کاغذ کی ایجاد ہوئی اس کے بعد یہ سلسلہ موجودہ پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقوں سے ہوتا ہوابحرہ عرب کے ذریعے خطہ عرب یا مشرق وسطی کے مخصوص علاقوں تک پہنچا ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ سلسلہ اور اس سلسلے کی اہم کڑی مسلمانوں کے ہاتھوں سے جاملتی ہیں کیونکہ چین نے اس وقت یعنی 105 میں کاغذ ایجاد کیا تھا مگر اس کو تقویت اور مزید بڑھوتری دینے والے مسلمان اور مسلمان حکمران تھے کیونکہ اس وقت زیادہ تر حکمران مسلمان تھے بعد ازاں یورپ میں بھی چھاپا خانے بننے لگے یورپ نے بھی مسلمانوں سے کاغذ اور کاغذ بنانے کے چھاپے خانے کا طریقہ سیکھا اس طرح مسلمانوں نے شروع میں نہ صرف کاغذ بیرون ملک بھیج کر اس ذریعے بہترین زرمبادلہ کمایا اس کے بعد امریکا یورپ اور دیگر مغربی ممالک کا سلسلہ جاری رہا اس کے بعد اپنے ممالک میں کاغذ کار خانوں کے بعد یہ سلسلہ کافی حد تک روکا رہا کاغذ کی ایجاد کے بعد ہر طرح کا لکھاری کاغذ کو نہ صرف استعمال کرنے لگابلکہ ہر طرح کا حکمران چاہے وہ مسلم تھا یا غیر مسلم خط و کتابت کے لئے ان کاغذوں کو استعمال کرتے اور پیغام رسائی کے لئے بغض کا استعمال کرتے تھے ایک حد تک دیکھا جائے تو مسلمانوں کے عروج کا دور دورہ تھا
اس سے پہلے پیپرس پھر چمڑے کی چھال پر یہ کام کیا جاتا تھالفظ پیپر بھی پیپرس ہی سے نکل کر بنا ہے اگر غیر مسلم کو خطابت یا پیغام رسائی کرنا ہوتی تب اس کو مسلمان مسلمان کاغذ خانوں پرانحصار کرنا پڑتا غیر مسلمان حکمران کاغذ کارخانوں کے محتاج تھے۔
کاغذ کی ایجاد کے ساتھ ہی ہر طرح کے مواد کو کاغذوں پہ لکھے جانے لگا اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ ان کاغذوں کو جمع کرکے جلد کیا گیا اور جلدکر کے اس شے کا نام *کتاب* رکھا گیا
۔
اس وقت مسلمان حکمرانوں کی پہچان کے علمی و ادبی ذوق اور ان کے علم محبت کے پہچان انکی کتب خانوں کے دیکھنے سے ہوا کرتی تھی جب کوئی قیدی پکڑا جاتا اس کے پاس سےاگر کوئی کتاب دریافت ہوتی تو اس کی کتاب اپنے قبضے میں لے کر لکھاریوں کو بلا کر اس کی مزید کاپیاں کروائیں اور بادشاہ کی ذاتی لائبریری میں محفوظ کر لی جاتی اس طرح دیکھا جائے تو نہ صرف معشیت بلکہ علم و ادب میں بھی مسلمان سپر پاور تھے اور مسلمان حکمران اور ہم مسلمانوں کی کامیابی کا راز ان کا ذاتی کتب خانہ کتب خانوی مواد تھا ۔ہر طرح کی تحقیق کے لیے وہ اپنے کتب خانوں کی طرف رجوع کرتے تھے اگر کوئی غیر مسلم مسلمانوں کی سلطنت کو وقتی نقصان پہنچتا تو سب سے پہلے اس کا نشانہ کتب خانہ ہوا کرتے تھے اس طرح کتب خانوں کو لوٹ کر کتابوں کو حاصل کرکے اپنی سلطنت کے لئے وقف کیا جاتا اور اپنی ذاتی عوامی کتب خانوں کی زینت بنایا جاتا رہا ۔
ماضی میں ایسے مسلمان حکمران بھی گزرے ہیں جن کے ذاتی کتب خانوں کی تعداد لاکھوں میں تھی
اور پہلے کتب خانے کا نام بیت الحکمت تھا--
ان کتب خانوں میں عوام بلکہ خاص لوگوں کے لیے رسائی مشکل سے ملتی تھی۔
مگر آج *کتاب دوستی* کتاب سے ہمارا تعلق دیکھا جائے تو صدیوں پرانا ہے ۔
1۔کتاب تنہائی کا بہترین ساتھی ہے۔
2۔آپ کو ذہنی سکون دیتی ہے ۔
_3کتاب مشکل وقت میں ہمیشہ ساتھ نبھاتی ہے -۔
4۔کتاب دوستی ایسی دوستی ہے جو کہ کبھی نقصان نہیں پہنچاتی ۔
5۔کتابوں کو پڑھنے سے اور کتابوں سے دوستی کرنے سے نہ صرف انسانی دماغ کے خلیوں کو تقویت ملتی ہے بلکہ انسان ذہنی طور پر خود کو پرسکون سمجھتا ہے
6-کتاب دوستی سے نا صرف ذہنی سکون حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ روحانی طور پر بھی پورے جسم کو تقویت ملتی ہے ۔
7۔کتابیں جب تک ہمارے معاشرے کا اہم رکن تھیں تب تک معاشرے میں نہ صرف انصاف کا بول بالا رہا بلکہ برداشت بھی آج کے بے حس معاشرے کی نسبت بہت زیادہ تھا ۔
8۔موجودہ دور میں کتاب دوستی سے دور ہونے کی وجہ سے ذہنی ڈپریشن اور تناؤ کی کیفیت بدترین بیماری بن چکی بلکہ تقریبا ہر خاص وعام اس میں مبتلا ہوگیا ۔
9۔کتاب دوستی برے سے برے انسان کو بدل کر ایک بہترین انسان بناتی ہے ۔
10۔کتاب عظیم دوست ہے۔
11۔کتاب ایسا دوست ہے۔ جس کا کوئی ثانی نہیں ۔
12۔کتاب معاشرے میں پسے ہوئے افراد کو بہترین انسان بنانے کے لیے بھرپور دوستی کا کردار ادا کرتی یے۔