جذبہ پاکستانیت میں والدین کا کردار

*جذبہ پاکستانیت اور والدین کا کردار*


جب کسی قوم یا فرد نے ترقی کی منازل طے کرنی ہوتی ہیں تو ان کے سامنے سب سے پہلے نصب العین یا ویژن رکھا جاتا ہےایک منزل رکھی جاتی ہے ایک راستہ جس راستے کو صراط مستقیم کہتے ہیں وہ راستہ رکھا جاتا ہے صراط مستقیم پر چلتے ہوئے وہ قوم و ملک ترقی کی منازل طے کرتے ہیں اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کی جاتی ہے لیکن اس جذبہ میں روح پھونکنے کے لیے سب سے پہلے ابتدا ء اپنے گھر سے کرنی پڑتی ہے کامیابی و کامرانی کی عملی روح کو بھونکنے میں والدین اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں دنیا کی ہر غیرت مند قوم یا ملک نے ترقی کرنی ہوتی ہے، تو قوم یا ملک یا دنیا پر حکومت کرنے والے ممالک سب سے پہلے ایک نصب العین بناتے ہیں جس نصب العین کو نیشنل ویژن کا نام دیا جاتا ہے اور اس کو ایک جذبے کے تحت آگے بڑھاتے ہیں اور اس جذبے کو ملک کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی جذبہ کی تکمیل کے لیے ہمارے والدین کو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک نصب العین یا ایک صراط مستقیم دینا چاہیے صراط مستقیم اور نصب العین کا نام پاکستانیت رکھا جائے اور بالکل اسی طرح کا جذبہ بیدار کیا جائے جس طرح کا جذبہ آزادی کی جنگ سے پہلے تھا لاکھوں کروڑوں جان ومال قربان ہونے کے باوجود جذبہ حب الوطنی تھا وہی آزادی کی جنگ جس کے لیے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دی ہم نے اسلام کے نام پر ملک کے خداداد پاکستان حاصل کیا۔


 حدیث شریف کا بھی مفہوم یہی ہے۔


* ماں کی گود سے قبر کی گور تک علم حاصل کرو* یعنی درس و تدریس کا سب سے پہلا عمل ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے یہ ماں ہی ہوتی ہے کہ بچوں کو سب سے پہلے بولنا سکھاتی ہے ادب سکھاتی ہے اچھی تربیت سے سکھاتی ہے اور اس کو آنے والی نسلوں کے لیے بہترین انسان بناتی ہے جب ہر ماں اپنے گھر میں بچوں کو پاکستانی جذبہ حب الوطنی اور جذبہ پاکستانیت سکھائیں گی ان کے اندر ایک جذبہ حب الوطنی پیدا کریں گے اور ان کو نصب العین دیں گے اور انہیں بتائیں گی کہ ہمارا ملک خداداد پاکستان دوسرے ملکوں سے کتنا مختلف ہے ہمارا ملک ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے جہاں پر نہ صرف تمام انسان برابر ہیں بلکہ ریاست مدینہ کی طرح تمام جانداروں سمیت دوسرے مذاہب کے تمام لوگوں کو دینی و مذہبی آزادی حاصل ہے مگر افسوس تیز رفتاری کی دوڑ میں ہمارے والدین، ہمارے محترم والدین یہ بھول چکے ہیں کہ نے اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت اور موجودہ نسل کی تربیت ایک نصب العین کے تحت کرنی تھی دنیا کے ہر ملک میں اس ملک سے محبت کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے تاکہ وہ ملک ترقی کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے پیچھے نہ رہ جائیں آج ہمارے والدین معاشی پسماندگی کا شکار ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے والدین بھی بچوں سے اس طرح سے بات چیت نہیں کرتے جس طرح سے ایک ترقی یافتہ ممالک کے والدین کرتے ہیں اس کے منفی اثرات آئے روز ہمیں یہ مل رہے ہیں کہ ہمارا نوجوان ہاتھ میں ڈگری اٹھائے محب وطن پاکستانی ہونے کے باوجود جذبہ پاکستانیت کو بلاۓ طا ق کرتے ہوۓ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کی بجائے دوسرے ممالک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں آخر کب تک ایسا ہی چلتا رہے گا ہمیں ایک دن آنے والی نسلوں کے لیے جذبہ پاکستانی پر کام کرنا ہوگا اس میں سب سے بہترین کردار ماں باب ادا کر سکتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر بچوں کو کم ازکم بیس سے تیس منٹ پاکستان کی اہمیت افادیت کے بارے میں ان سے ہم کلام ہو جائیں جن قربانیوں کے نتیجے میں ملک کئی سالوں کی محنت کے بعد حاصل ہوا تھا وہ یاد کرواتے رہا کریں جذبہ حب الوطنی سے اور وطن سے محبت کے ساتھ روشناس کرائیں کہ یہ ملک ایسے ہی حاصل نہیں ہو گیا سلامتی کے ادارے ایسے ہی نہیں بن گئے ہم اگر یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا ہے تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری اس کی قدر کی ذمہ داری بھی ہماری ہے نہ کہ مغربی معاشرے کی ،معاشرے کو فیس کرنے کے بجائے ہم یہاں سے نکل کر باہر ممالک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں


*اپنی مٹی ہی پےچلنا سیکھو اقبال 


سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے* 


اسی طرح علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یہ شعر ہے 


*افراد کے ہاتھ میں ہے اقوام کی تقدیر 


ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ* 


مجھے امید ہے اس تحریر کو پڑھنے کے بعد بہت سے والدین روزانہ کی بنیاد پر بچوں میں جذبہ پاکستانیت پیدا کریں گے تاکہ ناصرف پاکستان کی سلامتی کے لیے موجودہ نسل اور آنے والی نسل کام کریں بلکہ اس کو ایک خوشحال اورترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کرے یہی قائداعظم اور علامہ اقبال کا خواب تھا جس کی عملی تعبیر ہم نے خود کرنی ہے اور اس کی ابتدا سب سے پہلے ہمارے والدین نے سب سے پہلے اپنے گھر سے کرنی ہے۔


انشاءاللہ شکریہ 


تحریر دانش رضا قریشی لائبریرین

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

لائبریری ٹیکنالوجیز

دنیا کا طاقتور ترین لائبریرین

ایک کتاب سے ارب پتی بننے والی خاتون رائٹر